08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط7
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر7
عثمان کے گھر والوں نے ہر جگہ پتہ کروا لیا تھا کچھ معلوم نہیں ہوا کسی کو بھی۔
کہاں چلے گئے یہ سب۔ جس جگہ جاتے ہیں وہاں بھی بندے بھیجے یہ وہاں تو گئے نہیں پھر گئے کہاں۔
سب پریشان تھے۔
عثمان رات کو وہ لڑکی دبے پاؤں آ گئی۔
آہستہ سے تالہ کھولا اور اپنے پیچھے چلنے کو بولا۔ آواز نہ اے سمجھ رہے ہو نہ۔
وہ عثمان اور نجم کو لئے آہستہ سے بڑھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنا پسینہ بھی صاف کئے جا رہی تھی کیوں کہ اسکو پتہ تھا پکڑے جانے کا مطلب ہے موت۔
ان کمروں سے نکل اے تھے وہ تینوں اب پچھلی سائیڈ پر تھے جہاں سے انکو دوڑ لگا کر نکلنا تھا۔
یہاں سے ہمکو بھاگ کر جانا ہوگا اس سے پہلے انکو پتہ لگے ہمیں کافی دور ہونا چاہیے کہ جب وہ پہنچ پائیں ہم انکی دسترس سے نکل چکے ہوں۔
سمجھ رہے ہو نہ تم۔ ہاں نجم بولا۔
ٹھیک ہے دوڑنا ہے اور ساتھ رہنا ہے۔
ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونا یہاں ہر جگہ موت ہے۔ تو چلو جلدی۔
اندھیرا اپنے عروج پر تھا۔ سناٹا تھا۔
ہر دو منٹ بعد کسی جانور کی آواز سنائی دیتی۔
وہ آگے بڑھتے جا رہے تھے۔
یقدم انکو کچھ عجیب سا لگا چونکہ کچھ روشنی پھیل چکی تھی تو صاف نظر آنے لگا تھا سب۔
لڑکی نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے اور ساکت ہوئی۔
یہ تو قدموں کی آواز ہے وہ ہمارے پیچھے آ رہے ہیں انکو پتہ لگ چکا ہے۔
جلدی کرو۔ بھاگو اور اتفاق سے ساتھ ساتھ۔
تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا انہوں نے تا کہ جلد نکل جایں پر وہ بھی یہاں کے ہی تھے جلد پھنچ گئے ان کے سروں پر۔
تینوں دوڑ رہے تھے جتنا تیز دوڑ سکتے تھے۔
نجم تھک گیا تھا۔
جلدی بھاگو نجم جلدی ورنہ وہ پکڑ لیں گے۔ عثمان چلایا۔
تینوں ساتھ تھے۔
نجم نے جب انکو دیکھا ڈر کے مارے بھاگا پر ان سے جدا ہو گیا۔
سب کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔
وہ نجم کے قریب پہنچ چکے تھے اور یہ دونوں بہت آگے آ چکے تھے۔
نجم کی چیخ سنائی دی انکو۔
یہ رکے انہوں نے دیکھا نجم پکڑا جا چکا تھا اب انکو آواز دے رہا تھا بچانے کو بلا رہا تھا۔
عثمان ھل نہیں رہا تھا اس لڑکی نے عثمان کو جھنجھوڑا ۔
ہم اسکو نہیں بچا سکتے۔
بھاگو عثمان وہ ہم تک پہنچ جایں گے۔
وہ پکڑا جا چکا ہے اسکی قسمت۔
بری موت مرنا ہے بولو۔ لڑکی بولی۔ نہیں عثمان نے سر ہلایا اور نجم کو چھوڑ کر بھاگ پڑے۔
نجم اور عثمان کا ساتھ بس اتنا ہی تھا۔ آج وہ تنہا رہ گیا تھا۔ آخری دوست کو بھی گنوا بیٹھا تھا۔
نجم کو وہ لوگ پکڑ کر لے جا رہے تھے۔
یہ دونوں دیوار تک پہنچ چکے تھے۔ ہمت کر کے دونوں کودے پھر ہاتھ پکڑے بھاگتے رہے۔
پاؤں دکھ رہے تھے ہمت ساتھ چھوڑ رہی تھی پر انکو پھر بھی بھاگنا تھا اور بھاگ رہے تھے۔
اب بہت دور نکل اے تھے یہ دونوں۔ لڑکی نے پیچھے اور آس پاس دیکھا۔ اور ٹھنڈی سانس بھری۔ خوشی اس کے چہرے پر تھی۔
ہم انکی پہنچ سے دور نکل اے ہیں۔
ڈر اب بھی ہے ہم انکا شکار ہیں انکی پوری کوشش ہوگی ہم نہ بچ سکیں۔
وہ ہمارے پیچھے ہوں گے پر کچھ آرام کرنا ہماری مجبوری ہے۔
یہاں ایک غار ڈھونڈتے ہیں وہاں کچھ ایرام کر کے پھر بھاگنا ہے دوبارہ سے۔
ایک غار مٹی کے تودا کے پیچھے انکو مل ہی گیا۔ اب وہ دونوں اس میں تھے۔
سانس چڑھ گئی تھی انکو۔ اب لمبے سانس لے رہے تھے۔ تم کیسے وہاں تھی ان میں۔ اپنے بارے میں کچھ بتاؤ مجہے۔
میرا نام زوبیہ ہے۔ میں ساتھ گاؤں کی ہوں۔ یہ ہم لوگوں کو پکڑ کر لاۓ تھے۔ ہم دو لڑکیاں اور چار لڑکے تھے۔
میں انکو پسند آ گئی انہوں نے مجہے پاس رکھ لیا اپنے سکون کے لئے۔ہم چار تھیں ادھر قبیلہ میں۔
ایک میری پکی دوست تھی میں اسکو بھی چھوڑ آیی۔
مجہے ڈر تھا کہیں ہمارے بھاگتے کا کسی کو پتہ نہ چل جائے۔
میں کافی عرصہ سے یہاں ہوں بھاگنا چاہتی تھی پر کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔
جب تمکو دیکھا تو امید ملی۔ ڈر سے اپنی دوست کو بھی نہیں بتایا۔مجہے ان کے ساتھ رہنا پڑ رہا تھا انہی کا کھانا کھا رہی تھی مجبوری تھی۔
میری دوست ناراض تو ہوگی پڑ سمجھ جائے گی۔ کر دے گی معاف۔
اب نکلتے ہیں یہاں سے ایسے نہ ہو کسی مصیبت میں پھنس جایں۔ابھی سوچا ہی تھا کہ پھر زوبیہ نے کان لگا لئے۔
اوہ وہ پہنچ گئے ہیں یہاں تک۔ مجہے نہیں یقین تھا اسکا مطلب وہ ہمیں چھوڑنا نہیں چاھتے۔ پھر پریشانی سے کچھ سوچنے لگی۔
عثمان کو یہاں کا کوئی پتہ نہیں تھا وہ تو زوبیہ کے ہی آسرا پر تھا۔
ہمیں جانوروں والا راستہ پکڑنا پڑے گا۔ خطرہ ہے پڑ مجبوری ہے۔ بچ گئے تو پہنچ جایں گے ورنہ یہیں مر جایں گے۔
میں نے نکلتے وقت دو چاقو اور ایک چھری ساتھ لے لی تھی کام اے گی ہمارے۔
چلو پھر عثمان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور جنگل کی طرف دوڑ لگا دی انہوں نے۔
ایک میل کے فاصلہ پر تھے وہ لیکن انکی رفتار بھی کم نہ تھی۔
ان میں چھپ چھپا کر زوبیہ کی دوست بھی تھی۔ وہ رو رہی تھی اور ان میں شامل ہو کر دوڑ رہی تھی۔
جنگل کے درمیان میں پہنچ گئے تھے یہ دونوں۔ اس جنگل سے کون نہیں ڈرتا تھا۔
یہ بھی موت کہلاتا تھا یہاں کے باسی کے بقول ۔جو جاتا کم ہی بچ کے واپس آتے تھے۔
اب اس قبیلہ نے واپسی کی راہ لی تھی کیوں کہ وہ ڈرتے تھے اس جنگل سے۔ پر ان میں سے کوئی تھا جو واپس نہیں گیا تھا اور ایک طرف چھپ گیا تھا۔
عثمان اور زوبیہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔
وہ وجود ان پر نظر رکھے فاصلہ پر ان کے ساتھ ہی چل رہا تھا انکو خبر نہ تھی۔
عثمان کے دماغ میں ابھی تک نجم کی باتیں تھیں جب نجم کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ نہیں بچ سکتا تب اس نے اونچی آواز میں کہا تھا۔
عثمان اگر تم زندہ بچ گئے تو میری بیوی اور بیٹا کا خیال رکھنا۔
میرے لئے دعا کرنا آسان موت کی تب عثمان کا دل اس بات نے چیر ڈالا تھا لیکن یہ بھی سچ تھا وہ واپس پلٹ نہیں سکتا تھا۔
عثمان اور زوبیہ آگے بڑھ رہے تھے کہ کسی پھنکار کی آواز نے ان کے جسم سے خون نکل لیا تھا جیسے۔ وہ دوڑ پڑے پوری رفتار سے۔
زوبیہ کھینچے جا رہی تھی کیوں کہ اسکو پتہ لگ گیا تھا جس کا ابھی عثمان کو پتہ نہیں تھا۔
تھوڑا سا بھاگے کہ ایک بڑا سا سانپ ان دونوں کے سامنے تھا۔
اتنا بڑا سانپ عثمان نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ اتنا بڑا کہ ایک بندے کو سالم نگل جائے۔
عثمان کے رونگٹے کھڑ ہے ہو گئے۔ ڈر سے وہ ھل بھی نہیں پا رہا تھا۔
ایک موت سے نکلے تھے تو دوسری موت ان کے سامنے تھی۔
زوبیہ نے عثمان کو جھنجھوڑا اور دوسری طرف بھاگی۔ عثمان اور وہ دونوں جس طرف جاتے سانپ ان کے سامنے کھڑا ہو جاتا آ کر۔
سانپ کو بھی تو آخر شکار مل گیا تھا۔ وہ کیسے چھوڑ دیتا۔
بھاگتے بھاگتے تھک گئے ۔سانپ کی رفتار بہت تیز تھی۔ وہ انکو چھوڑ نہیں رہا تھا۔
بالآخر سانپ نے زوبیہ کو پکڑ لیا کہیں سے آ کر ایک ہی جھٹکا سے اسکو پتہ بھی نہ لگنے دیا۔
عثمان کھڑا دیکھ رہا تھا اتنا بڑا سانپ اور اس کے منہ میں آدھی زوبیہ کو۔
زوبیہ چیخ کر عثمان سے بولی۔ عثمان کی طرف چھری پھینکی۔
عثمان یہ چھری پکڑو۔
یہ سانپ مجہے نگلے گا پہلے جیسے نگلے تم نے ڈرنا نہیں ہے قریب آ کر اس کے پیٹ کو چیرنے لگ جانا۔
یہ ایک وقت میں ایک بندے کو کھاتا ہے ۔
تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔
جب تم چیرو گے تو میں نکل آؤں گی اندر سے۔ تم مجہے بچا سکتے ہو عثمان۔
اب تم پر ہے دیکھو میں نے تمہیں ان سے بچایا تم مجہے بچاؤ۔
یہ مجہے نگل کر درخت کے گرد لپٹ جائے گا پھر زور سے گھومے گا تو میں گوشت کے ڈھیر میں بدل جاؤں گی اسکی خوراک کی صورت میں۔
پلیز آگے بڑھو اس کے نگلنے سے پہلے۔
جلدی کرو ڈرو نہیں۔